Saturday, 20 July 2013

Filled Under:

حفیظ اور مصباح تنازعہ،اصل کہانی ہے کیا؟

تنازعات ،اختلافات اور ساشوں کا پاکستان کرکٹ کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ رہا ہے جس میں مفادات کی جنگ میںMisbah ul Haq and Mohammad Hafeez کسی کی بھی ٹانگیں کھینچی جاسکتی ہیں جس کے نتیجے میں بے شک پاکستان کرکٹ دھڑام سے نیچے جاگرے اس کی کسی کو بھی پرواہ نہیں ہوتی۔پاکستان کرکٹ کا ماضی ایسی داستانوں سے بھراپڑا ہے جب عہدے کے لالچ نے کھلاڑیوں میں اختلافات کو ہوا دی اورگزشتہ کچھ دنوں سے قومی ٹیسٹ اور ون ڈے ٹیم کے کپتان مصباح الحق اور ٹی20کے قائد محمد حفیظ کے درمیان اختلافات کی خبریں اخبارات کی زینت بن رہی تھیں کہ دونوں کپتانوں اور دوستوں کے درمیان اختلافات شدید نوعیت کے ہوچکے ہیں جس کی بنیادی وجہ ٹیسٹ ٹیم کی قیادت ہے ۔ مصباح الحق جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش کی خفت سے دوچار ہونے کے باوجود کپتانی چھوڑنے کو تیارنہیں جبکہ ٹی20 فارمیٹ میں جنوبی افریقہ کے ٹور پر اب تک اکلوتی کامیابی دلوانے والے اور کیرئیر بیسٹ اننگز کھیلنے کے بعد محمد حفیظ کی نظریں دیگر دونوں فارمیٹس کی کپتانی پر بھی جم گئی ہیں جو خود کو کپتانی کا سب سے مضبوط اور اہل امیدوار سمجھ رہا ہے۔مصباح الحق اور محمد حفیظ کی ’’جنگ‘‘ کو میڈیا کا ایک مخصوص گروپ بڑھا چڑھا کر پیش کررہا ہے اور اب کھلے بندوں ٹی وی اسکرین پر مصباح الحق کو کپتانی سے علیحدہ کرنے کا مطالبہ بھی کرڈالا ہے جو صرف مصباح الحق کو ہٹانے کے ساتھ ساتھ محمد حفیظ سے بھی جان چھڑانے کا ’’فارمولا ‘‘ ہے کیونکہ دونوں کپتانوں کے درمیان اختلاف رائے ہے، کشیدگی یا کچھ اورلیکن اس کا فائدہ یقینی طور پر ان لوگوں کو پہنچ رہا ہے جو بظاہر منظر پر نہیں ہیں کیونکہ اس وقت ساری نظریں مصباح الحق اور محمد حفیظ پر ہیں لیکن درپردہ وہی لوگ مستفید ہورہے ہیں جو انتشار کی ان خبروں کے خالق ہیں۔
ٹیم سلیکشن ،میچ کے دوران حکمت عملی اور ٹیم سے متعلقہ دیگر معاملات پر کپتان اور نائب کپتان یا کوچ کے درمیان اختلافات رائے ہونا معمول کا حصہ ہے لیکن اس اختلاف رائے کو ’’جنگ‘‘ کا نام دے کر ٹیم میں پھوٹ ڈلوانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ گزشتہ تین برسوں سے اسکینڈلز سے دور اور مستقل مزاجی کے ساتھ پرفارم کرنے والی ٹیم ایک مرتبہ پھر عدم استحکام کا شکار ہوکر مسائل میں اُلجھ جائے اوران صحافیوں کا بھی پیٹ بھرتا رہے جنہیں ’’مرچ مسالے‘‘کے ذائقے کی عادت ہوگئی ہے کیونکہ ایسے قلم کے ’’مجاہد‘‘گزشتہ کئی مہینوں سے ’’بدہضمی‘‘ کا شکار ہیں جنہیں پاکستانی ٹیم سے کوئی گرما گرم خبر نہیں مل رہی تھی۔ٹیسٹ سیریز میں تو جنوبی افریقی ٹیم نے پاکستان کو سر اُٹھانے کا بھی موقع نہیں دیا جس میں کھلاڑی کسی اور ’’چکر‘‘ میں پڑنے کی بجائے اپنی اپنی جگہ بچانے کے چکر میں تھے مگر ٹی20کی کامیابی نے گرین شرٹس کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی لیکن ون ڈے سیریز شروع ہونے سے قبل ہی اختلافات کی خبروں نے اخبارات کے اسپورٹس کے صفحے پر نمایاں جگہ حاصل کی۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کپتان اور نائب کپتان کے درمیان جنگ محض اختلاف رائے تھا کیونکہ مصباح الحق ون ڈے سیریز میں محمد حفیظ کو نمبر تین پوزیشن پر کھلانا چاہتے تھے لیکن ٹی20کپتان اننگز کا آغاز کرنے پر بضد تھا ۔یہ ایک ایسا اختلاف رائے تھا جو میچ کی حکمت عملی مرتب کرتے وقت ہوسکتا ہے لیکن مصباح الحق اور محمد حفیظ کے درمیان ہونے والے اختلاف رائے کو قومی ٹیم کے ’’مخبروں‘‘ نے بڑھاچڑھا کر پیش کیا تاکہ متحد پاکستانی ٹیم میں گروپ بننے میں دیر نہ لگے۔ مصباح الحق نے میڈیا کی زینت بننے والی اختلافات کی خبروں کو بے بنیاد، من گھڑت اور غلط قرار دیا کہ’’اختلافات کی خبریں جولوگ دے رہے ہیں میں انہیں بتاناچاہتا ہوں کہ ٹیم کے تمام کھلاڑی ایک خاندان کی طرح ہیں اور ایک دوسرے کو سپورٹ کررہے ہیں‘‘جبکہ منیجر نوید اکرم چیمہ کا بھی کہنا تھا کہ اختلافات کی خبریں پھیلانے والے ٹیم میں انتشار پھیلا نا چاہتے ہیں۔یہ درست ہے کہ ماضی میں کپتانی کی رسہ کشی میں کھلاڑیوں کے باہمی تعلقات میں دڑاریں پڑ گئیں جنہوں نے مفادات کی جنگ جیتنے کیلئے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہ کیا لیکن تینوں فارمیٹس میں پاکستانی ٹیم کے دونوں کپتان مصباح الحق اور محمد حفیظ آپس میں گہرے دوست ہیں اور ڈومیسٹک کرکٹ میں سرگودھا،فیصل آباد اور سوئی ناردرن گیس کی نمائندگی سے لے کر پاکستانی ٹیم کی قیادت تک دونوں کھلاڑیوں کا کیرئیر ایک ساتھ آگے بڑھتا رہا ہے اور کرکٹ سے فارغ اوقات میں بھی دونوں کا زیادہ تر وقت ایک دوسرے کے ساتھ ہی گزرتا ہے جن کے گھر بھی ایک دوسرے سے زیادہ دور نہیں ہیں مگر دوسری طرف یہ بات بھی اَٹل ہے کہ دونوں کھلاڑی اپنے اصولوں کے بھی پکے ہیں جنہوں نے کسی بھی موقع پر اپنی دوستی کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی ۔2009ء میں مصباح الحق اپنی شاندار کارکردگی کے ساتھ بیٹنگ لائن کا اہم ستون ہونے کے ساتھ ساتھ قومی ٹیم کا نائب کپتان بھی جبکہ محمد حفیظ ان دنوں 2007ء میں پاکستانی ٹیم سے باہر ہونے کے بعد واپسی کے دن گن رہا تھا جسے ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ پرفارمنس دکھانے کے باوجود پاکستانی ٹیم میں شامل نہیں کیا جارہا تھا ۔ان دنوں حفیظ کی رہائش گاہ پر ایک انٹرویو کے دوران میں نے سوال کیا کہ درینہ دوست ہونے کے ناطے آپ مصباح الحق کو اپنی واپسی کیلئے کیوں نہیں کہتے تو ’’پروفیسر‘‘ کا جواب تھا کہ میں سفارش کی بجائے اپنی محنت پر ٹیم کا حصہ بننا چاہتا ہوں۔ایسے پس منظر کے بعد محمد حفیظ اور مصباح الحق کے درمیان اختلاف رائے کی خبروں پر تو یقین کیا جاسکتا ہے مگر یہ ماننا مشکل ہے کہ کپتانی کی رسہ کشی میں حفیظ اور مصباح کے درمیان قربتیں ختم ہوتے ہوئے فاصلے بڑھ گئے ہیں بلکہ ایک ویب سائٹ نے یہ مختلف فارمیٹس کے کپتانوں کے متعلق ایک کارٹون بناتے ہوئے اسے یہ عنوان دے ڈالا ہے کہ ’’ہماری لڑائی کیسے ہوسکتی ہے ہم تو آپس میں بات بھی نہیں کرتے‘‘
ماضی میں وسیم اکرم اور وقار یونس کی مثالی دوستی کپتانی کے لالچ کا شکار ہوکر رقابت میں بدل گئی تھی جو 1994ء کے دورہ نیوزی لینڈ میں ایک دوسرے سے بات کیے بغیر وکٹوں کے ڈھیر لگاتے رہے اور پورے کیرئیر کے دوران ٹو ڈبلیوز میں سے جس کو بھی ’’طاقت‘‘ ملی اس نے اپنے ساتھی کو نیچا دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔وسیم اور وقار میں پیدا ہونے والے فاصلوں کی وجہ ٹھوس تھی کہ دونوں کو کیرئیر کے ابتدائی عرصے میں کپتانی کا خواب دکھادیا گیا تھا اور دونوں کی خواہش تھی کہ وہ طویل عرصے سے قیادت کے منصب پر فائز ہوجائیں جن کے سامنے ان کا پورا کیرئیر پڑا ہوا تھا مگر مصباح الحق اور محمد حفیظ کے درمیان ایسی صورتحال نہیں ہے کہ قیادت کی خواہش دونوں کھلاڑیوں کے درمیان فاصلے پیدا کردے کیونکہ مصباح الحق اس وقت اپنے کیرئیر کے بالکل آخری کنارے پر کھڑا ہے جو کسی بھی وقت انٹرنیشنل کرکٹ سے دور ہوسکتا ہے جبکہ محمد حفیظ کے پاس ’’پروفیسری‘‘ کرنے کیلئے چند سال باقی ہیں اورمصباح الحق کی رخصتی کے بعد ٹیم کے نائب کپتان کی حیثیت سے کپتانی خودبخود محمد حفیظ کی جھولی میں آگرے گی جسے کچھ عرصے قبل صرف اس لیے ٹی20ٹیم کا کپتان بنایاگیا تھا کہ مصباح الحق کی ریٹائرمنٹ سے پہلے اگلا کپتان تیار کیا جاسکے۔ جب پی سی بی کی منصوبہ بندی کے مطابق کچھ عرصہ بعد کپتانی تھالی میں سجا کر محمد حفیظ کو پیش کی جانی ہے تو پھر ٹیم کے سب سے سمجھدار رکن کو کپتانی کیلئے اتنا اُتاولا ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ اس لیے ’’پروفیسر‘‘ کی بے چینی کی کوئی منطق نہیں بنتی کیونکہ بے چینی اور اضطراب صرف اسی چیز کیلئے ہوتا ہے جو دسترس سے باہر ہو۔ اس کے حصول کیلئے اضطرابی کیفیت کا شکار ہوکر ہر جائز و ناجائز طریقہ اپنایا جاسکتا ہے۔اس ساری صورتحال میں محمد حفیظ کا کپتان مصباح الحق سے تعلقات کا کشیدہ کرنا غیر منطقی معلوم ہوتا ہے کیونکہ خاموش رہ کر صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے مشہور ’’پروفیسر‘‘ کیلئے سب سے بہتر چوائس یہی ہوتی کہ وہ دورہ جنوبی افریقہ ختم ہونے کا انتظار کرتا جو وہ کربھی رہا ہے مگر میڈیا پر مصباح اور حفیظ کی کشیدگی کی خبریں دے کر ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ دورہ جنوبی افریقہ کے بعد کپتانی کو مصباح الحق اور محمد حفیظ کیلئے شجر ممنوعہ قرار دے کر ’’کسی اور‘‘ کا بھلا کرنے کی کوشش کی جائے۔محمد حفیظ ٹیسٹ اور ون ڈے ٹیم کی کپتانی کیلئے آٹومیٹک چوائس ہے جسے اس حوالے سے کوئی بے چینی نہیں ہے مگر دونوں کپتانوں کے درمیان اختلاف رائے کو ’’جنگ‘‘ کا نا م دینے والے ضرور بے چینی اور اضطراب کا شکار ہیں کیونکہ جن لوگوں کیلئے حالیہ فارم اور پرفارمنس کے ساتھ انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنا رسی پر چلنے کے مترادف ہے انہیں مصباح اور حفیظ کاایک ساتھ پتہ صاف ہونے کی صورت میں کپتانی کا ایک اور ’’ڈُگ‘‘ لگانے کا موقع مل جائے گا جو ان کے کیرئیر کے ٹمٹماتے دیے کو روشن قمقمے میں تبدیل کرسکتا ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو مصباح اور حفیظ کی جنگ کے اصل جنگجو ہیں جنہیں میڈیا اور سابق کھلاڑیوں کی اکثریت کی بھی حمایت حاصل ہے۔
مصباح الحق ان دنوں اپنے کیرئیر کے خراب ترین دور سے گزر رہا ہے جس کی ٹیم شکستوں سے نکل نہیں پارہی اور خود مصباح کا بیٹ بھی خاموش ہے جس کے بعد ایک خراب سیریز نے مصباح الحق کی ان کاوشوں پر پس پشت ڈال دیا ہے جو اس نے گزشتہ دوبرسوں میں کی ہیں۔اس ایک خراب سیریز کے بعد مصباح الحق کا کیرئیر داؤ پر لگ چکا ہے جس کے بچنے کے امکانات بہت کم ہیں اور اس ساری صورتحال میں مصباح الحق اور محمد حفیظ کے درمیان اختلاف رائے کو ’’جنگ‘‘ کا نام دینے والے پاکستانی ٹیم میں انتشار اور گروپ بندی کا بیج بونے کی کوشش کررہے ہیں ۔ 2007ء سے لے کر 2010ء تک پاکستانی ٹیم جن حالات کا شکاررہی ،وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں جس میں مختلف قسم کے اسکینڈلز منظر عام پر اُبھرے جبکہ کپتانوں کی تبدیلی بھی پاکستانی ٹیم کی قسمت نہ بدل سکی مگر مصباح الحق نے گزشتہ دو ڈھائی برسوں میں عمدگی سے سنبھالتے ہوئے پاکستانی ٹیم کو کامیابیوں سے بھی ہمکنار کیا مگر اب ایک مرتبہ پھر پاکستانی ٹیم کو مشکلات کا شکار بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ مصباح الحق اور محمد حفیظ کو کپتانی سے دور کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر پاکستانی ٹیم اسی صورتحال سے دوچار ہو جائے گی جس کا سامنا 2010ء کے دورہ انگلینڈ میں تھااور یہ صورتحال کسی طور پر پر بھی پاکستان کرکٹ کے حق میں نہیں ہوگی۔ اس لیے پی سی بی کو چاہیے کہ مصباح الحق اور محمد حفیظ کے درمیان لڑائی ختم کروانے کے بجائے ان عناصر کا خاتمہ کرے جو اپنے مفادات کی خاطر پاکستان کرکٹ کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں




0 comments:

Post a Comment